افغان سفیر جانان موسٰی زئی نے دہشت گرد گروہوں بالخصوص دولت اسلامیہ(داعش) کے خلاف علاقائی تعاون پر زور دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج دہشت گردی ختم کرنےکیلئے کسی ایک ملک کےپاس حل یا حکمت عملی نہیں۔’ اس مشترکہ دشمن کو ختم کرنے کیلئے ہم سب کو متحد ہو کر اجتماعی جواب دینا ہو گا‘۔
افغان سفیر نے بدھ کو یہاں سینٹر فار پاکستان اینڈ گلف سٹیڈیز کے زیر اہتمام ایک سیمینار سے خطاب میں دہشت گرد گروہوں سے لاحق خطرات کی نوعیت میں تبدیلی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے سرگرم تحریک طالبان پاکستان کا جھکاؤ داعش کی جانب ہو رہا ہے۔
’اس کی ایک مثال ٹی ٹی پی کے کچھ سابق جنگجوؤں
کا افغان صوبہ ننگرہار میں گھس جانا اور داعش کا جھنڈا تھامنا ہے‘۔
موسٰی زئی کے مطابق، دنیا کے دوسرے حصوں کی طرح داعش پاکستان میں بھی اپنا پروپیگنڈا اور دقیانوسی نقطہ نظر پھیلا رہا ہے۔
’دہشت گرد گروہوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ تیز رفتار ہیں، ان کا کوآرڈینیشن، کمیونیکیشن اور کوآپریشن بہتر ہے۔اس کے برعکس علاقائی ریاستیں کافی سست روی سے کام کر رہی ہیں‘۔
’ہم اجتماعی ردعمل اور موثر کارروائی کیلئے ضروری طریقہ کار اور متفقہ قواعد بنانے میں ناکام رہے ہیں‘۔
’قومی سطح پر ملکوں کو تشدد کیلئے اکسانے والے فتوی مراکز، جلسے جلوس، اور اجلاس مکمل طور پر ختم کرنا ہوں گے‘۔